تم فقط میرے
تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر15
"مجھے بتاؤ۔۔ کیا تم اسے اب بھی اپنانا چاہتے ہو۔۔؟؟ آئی مین۔۔ اگر چاہو تو میں اسے۔۔" وہ ابھی بول ہی رہا تھا کہ عادل نے اس کی بات کاٹی۔
"بھائی۔۔!!میں نے محسوس کیا ہے، اب وہ مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔۔ اور نہ ہی میرا اس سے کوئی لینا دینا ہے، پلیز آپ کبھی تو اپنی عقل استعمال کیا کریں ۔۔ وہ لڑکی ہے ، جیتی جاگتی انسان، کوئی بے جان کھلونا نہیں کہ ہم جب چاہیں، اپنے مطالبات کے مطابق اس کا استعمال کریں۔۔!!" عادل کو واقعی عدیل کی اس پیشکش پر تاؤ آیا تھا۔
عدیل۔۔ بھی کب چاہتا تھا کہ وہ اسے چھوڑ دے، لیکن برا ہو اس کی کم فہمی کا، جو وہ اپنے دل کی بات سمجھنے سے ہی قاصر تھا۔۔اور عادل کی ناراضگی دور کرنے کے لیے وہ اتنی بڑی آفر کر بیٹھا۔
ابھی اگر عادل اگر اس کی پیشکش قبول کر لیتا تو۔۔ عدیل کا بہت نقصان ہوجانا تھا۔۔ شکر تھا کہ اس نے، دل کھول کر عدیل کو جھاڑا تھا۔۔ ورنہ اس نے اپنی بےوقوفیوں کے مظاہرے دکھانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔
عدیل، عادل کے جواب پر متذبذب ہوتا ، وہاں سے چلا گیا۔
×××××
عدیل تو عدیل، عادل بھی اس سارے واقعے کے بعد خود کو کافی ہلکا محسوس کر رہا تھا، اس کے دل پر بھی تو بوجھ تھا کہ کسی کو اس کا خیال نہیں۔۔ وہ بھی تو دکھی تھا کہ کسی کو اس کی ناراضگی کی پروا نہیں۔۔!! اب ایسی معافی تلافی کے بعد، اسے بھی کافی اچھا محسوس ہورہا تھا۔
××××
عنقا کے ایگزامز شروع ہونے والے تھے، اور عنقا تو چاہتے ہوئے بھی اپنی پڑھائی میں دھیان نہیں لگا پا رہی تھی۔۔اسے ہر چیز سے بیزاری اور اکتاہٹ محسوس ہوتی۔
ابھی بھی۔۔ وہ۔۔ کتابوں میں گھسی بیٹھی تھی۔۔ دماغ تھا کہ کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا، اسے رہ رہ کر خود پر غصہ آیا کہ آخر وہ کیوں دھیان نہیں لگا پا رہی۔۔ اتنے میں اس کی امی کافی کا مگ لیے اس کے روم میں آئیں، اسی نے تھوڑی دیر پہلے اپنی امی کو کافی کا بولا تھا۔
"کیسی تیاری ہو رہی ہے۔۔؟؟" انہوں نے پیار سے پوچھا۔
ان کے پوچھنے کی دیر تھی کہ عنقا کی آنکھیں فوراً موٹے موٹے آنسوؤں سے بھر گئیں، "امی۔۔ کچھ بھی نہیں سمجھ آ رہا۔۔ کچھ تیار نہیں ہورہا۔۔" وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
اس کی امی تو اس کے اچانک ، ایسے رد عمل پر پریشان ہی ہو گئیں۔۔ "بیٹا۔۔ کیا ہوا۔۔؟؟ اس میں ایسے رونے والی کیا بات ہے۔۔؟؟ ابھی تیار نہیں ہو رہا تو تھوڑی دیر بعد کوشش کر لینا۔۔" انہوں نے پیار سے پچکارتے ہوئے کہا۔
"نئی۔۔ امی۔۔ مجھے پتہ ہے۔۔ مجھے ایک لفظ بھی تیار نہیں ہوگا۔۔ پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے۔۔ دل پر عجیب بوجھ محسوس ہوتا ہے ۔۔ کوئی کام نہیں ہوتا۔۔ کچھ سمجھ نہیں آتا۔۔ ہر وقت سوگوار سی کیفیت طاری رہتی ہے۔۔" وہ امی سے لپٹتے ہوئے، رو رو کر اپنا حال بتا رہی تھی۔
اس کی امی کو اس کی یہ حالت خوب اچھی طرح سمجھ میں آ رہی تھی۔۔ اور اس کی کیفیت کے بارے میں سنتے ہی ، انہوں نے دھیما سا مسکرا کر، اس کی پیشانی کو چوما۔
"اچھا۔۔ چلو ۔۔ میں کچھ کرتی ہوں۔۔" وہ آہستگی سے اس کو خود سے علیحدہ کرتے ہوئے بولیں۔
××××
"سلیمان صاحب۔۔ اب بہت ہو گیا۔۔ ہمیں عنقا کے سلسلے میں اس کے سسرال والوں سے بات کرنی چاہیے۔۔" عنقا کی امی نے شام کی چائے کے دوران بات شروع کی۔
"ہاں۔۔ میں بھی سوچ رہا تھا۔۔ لیکن ہم لوگ لڑکی والے ہیں۔۔ کیا ہمارا بات کرنا ٹھیک رہے گا۔۔ اور عنقا بھی تو۔۔ جانے کو راضی نہیں۔۔ پھر کیسے بات کریں گے۔۔!!" انہوں نے پریشانی سے اپنی ایک انگلی ماتھے پر رگڑتے ہوئے کہا۔
"مجھے نہیں پتہ سلیمان صاحب۔۔!! اگر میری بچی کچھ دن اور یہاں رہی ناں۔۔ تو نفسیاتی مریضہ بن جائے گی۔۔میں نہیں چاہتی اسے کچھ ہو۔۔!! بس آپ ان لوگوں سے بات کریں کہ وہ آ کر لے جائیں اسے۔۔" وہ جذباتی ہوئیں۔
"اچھا۔۔ چلیں میں دیکھتا ہوں۔۔!!" وہ سہولت سے جواب دیتے ہوئے بولے۔
"دیکھیں نہیں۔۔ کچھ کریں۔۔ پتہ ہے سارا سارا دن۔۔ وہ اپنے شوہر کو سوچ سوچ کر کڑھتی رہتی ہے۔۔ زبان سے بے شک وہ کچھ نہ کہے پر۔۔ میں ماں ہوں اس کی۔۔ سب سمجھتی ہوں کہ اس کے دل میں کیا کچھ چل رہا ہے۔۔" انہوں نے جلدی مچاتے ہوئے کہا۔
ان کی جلدبازی دیکھتے ہوئے، سلیمان صاحب نے مصطفیٰ صاحب کو کال ملائی، پہلی بیل پر کال ریسیو کی گئی۔ انہوں نے رسمی علیک سلیک کے بعد فون کرنے کا مقصد بیان کیا۔
مصطفیٰ صاحب تو خود بھی یہی چاہتے تھے کہ عنقا ، ان کے گھر واپس آ جائے۔ انہوں نے مزید بات کرنے کے لیے، فون اپنی بیگم کو تھمایا، فون کی دوسری طرف بھی۔۔اب عنقا کی امی موجود تھیں۔ انہوں نے آپس میں گفتگو کی اور عنقا کو گھر واپس لانے کا سارا پلین ترتیب دیا۔
××××
اگلے روز، عنقا کی امی اس کے پاس آئیں، ویک اینڈ تھا تو یونیورسٹی بند تھی۔۔ اس لیے وہ گھر پر ہی تھی۔ "بیٹا۔۔!! جلدی۔۔ سے اپنی ساری چیزیں پیک کرو۔۔ ہمیں فوراً نکلنا ہے۔۔" انہوں نے جلدی جلدی کہا۔
"کیوں کیا ہوا۔۔؟؟" وہ ان کے اچانک ایسے رویے میں دیے گئے حکم پر ہڑبڑا کر رہ گئی۔
"وہ تمہارے ساس سسر کی کال آئی ہے۔۔ وہ تمہیں لینے آ رہے ہیں۔۔!!" انہوں نے بتایا۔
"آتے رہیں۔۔ میں نے ان کے ساتھ کہیں بھی نہیں جانا ۔۔" اس نے ان کی بات سن کر سکون سے جواب دیا۔
"پاگل مت بنو۔۔!! اللّٰه اللّٰه کر کے تو وہ تمہیں لینے آ رہے ہیں۔۔ آگے سے ایسی باتیں کر رہی ہو۔۔!!" اس کی امی نے اسے ڈانٹا۔
"میں نے ان کے پیر نہیں پکڑے کہ مجھے لینے آئیں۔۔ اس لیے میں نے نہیں جانا ان کے ساتھ۔۔'' اس نے ضد سے کام لیا۔
وہ ابھی اپنی ضد اور ہٹ دھرمی جاری رکھے ہوئے تھی کہ اس کے ابو کمرے میں داخل ہوئے اور اپنی رعب دار آواز اور سخت لہجے میں اسے اپنی چیزیں پیک کرنے کا حکم دیا۔ ان کے آگے، تو یہ "چوں" بھی نہیں کر پائی۔
وہ چاہتے تو کب کا اسے واپس بھیج دیتے۔۔ لیکن اب تک انہوں نے اس کے معاملے میں نرمی اختیار کی ہوئی تھی۔۔ مگر اب وہ اسے مزید ڈھیل نہیں دے سکتے تھے۔ آخر کو وہ اس کے باپ تھے۔۔ اور اس کے مستقبل کی پروا بھی کرتے تھے۔
××××
وہ واپس جانے کے لیے بالکل تیار نہیں تھی۔۔ لیکن اس میں بڑوں کے حکم اور فیصلے کے آگے بولنے کی زیادہ ہمت بھی نہیں تھی۔ اس نے اپنی طرف سے کمزور کمزور سا انکار کیا ، مزاحمت کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا اور وہ کڑھتی ہوئی اپنے ساس سسر کے ساتھ روانہ ہوئی۔
عدیل نے تو اپنی طرف سے لاتعلقی کے سارے ریکارڈ توڑ رکھے تھے۔۔اسے اپنی کافی بےعزتی محسوس ہوئی کہ وہ خود ہی زبردستی واپس آ گئی۔۔
خیر اب کیا ہو سکتا تھا۔۔ اب تو وہ واپس آ چکی تھی۔
×××
عدیل کی مام ، بڑے پیار اور اہتمام سے اسے عدیل کے کمرے میں چھوڑ کر آئیں۔